حدیث سوادِ اعظم کا صحیح
ثبوت اور مفہوم
"السواد الاعظم" عربی زبان میں
"سب سے عظیم جماعت" کو کہتے ہیں.[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]
تمہید
: علماء حدیث و فقہ نے درج ذیل احادیث کی بنیاد پر اختلافات کے
وقت جمہور علماء ((اہل السنّت والجماعت)) کے متفقہ راۓ ((اجماع)) کو راجح قرار دیا ہے، جیسے:
اصول حدیث : ائمہ حدیث نے اِس
بات کی تصریح کی ہے کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل کے اقوال متعارض
ہوں، تو ان میں ترجیح کے لئے علماء نے اوّلاً دو طریقے اختیار کئے ہیں، پہلا طریقہ
جو کہ جرح و تعدیل کے دوسرے (فیصلہ کن) اصول کی حیثیت رکھتا ہے، اُسے علامہ خطیب
بغدادی نے ’’الکفایۃ فی اصول الحدیث والروایۃ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’ ایسے
مواقع پر یہ دیکھا جائے گا کہ جارحین کی تعداد زیادہ ہے یا معدلین کی، جس کی طرف
تعداد زیادہ ہوگی ، اُسی جانب کو اختیار کیا جائے گا ۔‘‘
اصول فقہ : اکثر فقہاء کا کسی مسئلہ پر متفق ہونا حجتِ شرعی ہے۔ اسی طرح خلافت
کے انعقاد کے لیے بھی پوری امت کا اجماع ضروری نہیں؛ بلکہ اکثر لوگوں کا متفق ہونا
کافی ہے۔ اسی لیے فقہاء نے قاعدہ بنایا” لِلْأکْثَرِ حُکْمُ الْکُل “ (الفقہ
الاسلامی وادلتہ۸/۲۶۲)
حدیث # 1
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ
النَّضْرِ [ثقة]،
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ صَفْوَانَ
الْبَرْذَعِيُّ [صدوق حسن الحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ
بْنِ شَاكِرٍ الصَّائِغُ [ثقة عارف بالحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ
الْقَرَنِيُّ [صدوق حسن الحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ
سُلَيْمَانَ [ثقة] ,
عَنْ أَبِيهِ [ثقة] , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
دِينَارٍ [ثقة] , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ,
قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"
لا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الأُمَّةَ عَلَى ضَلالَةٍ أَبَدًا " . قَالَ :
" يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ , فَاتَّبِعُوا السَوَادَ الأَعْظَمِ ,
فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ " .
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لللالكائي (سنة الوفاة:418) » سياق ما روى عَنِ النبي صَلَّى الله عَلَيه وَسَلّمَ ...رقم الحديث: 135(154)]
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لللالكائي (سنة الوفاة:418) » سياق ما روى عَنِ النبي صَلَّى الله عَلَيه وَسَلّمَ ...رقم الحديث: 135(154)]
خلاصة
حكم المحدث : سنده حسن (اس حدیث کی سند حسن یعنی اچھی ہے)
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لللالكائي (سنة الوفاة:418) » سياق ما روى عَنِ النبي صَلَّى الله عَلَيه وَسَلّمَ ...رقم الحديث: 154(1/106)، تحقیق: ڈاکٹر احمد سعید حمدان]
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لللالكائي (سنة الوفاة:418) » سياق ما روى عَنِ النبي صَلَّى الله عَلَيه وَسَلّمَ ...رقم الحديث: 154(1/106)، تحقیق: ڈاکٹر احمد سعید حمدان]
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللهؐ سے مروی ہیں کہ :
" نہیں جمع (متفق) کرے گا اس (میری) امت کو کسی گمراہی پر کبھی"،
(پھر) فرمایا : "الله کا ہاتھ (سایہ مدد) جماعت پر ہے، تو تم اتباع
(پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ
کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں
(داخل کرنے کو).
امام حاکمؒ نے بھی اپنی
سند سے اپنی کتاب "المستدرک:1 / 115-116" میں حضرت ابن عمرؓ کی یہ روایت
دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحت سند کا رجحان تو ظاہر کیا
ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبیؒ نے سکوت (خاموشی جو نیم رضامندگی ہے) کیا ہے.
الصفحة أو الرقم: 1/109 | خلاصة حكم المحدث : غريب
|
رسول اور مومنین کی مخالفت کا عذاب:
وَمَن
يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ
المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ
جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرًا {4:115}
|
اور جو
کوئی مخالفت کرے رسول کی جبکہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف
جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا [۱۷۲]
|
And
whosoever opposeth the apostle after the truth hath become manifest unto him,
and followeth other way than that of the believers, We shall let him follow
that to which he hath turned, and shall roast him in Hell - an evil retreat!
|
یعنی جب
کسی کو حق بات واضح ہو چکے پھر اس کے بعد بھی رسول کے حکم کی مخالفت کرے اور سب
مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جُدی راہ اختیار کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جیسا کہ
اس چور نے کیا جس کا ذکر ہو چکا بجائے اس کے کہ قصور کا اعتراف کر کے توبہ کرتا
یہ کیا کہ ہاتھ کٹنے کے خوف سے بھاگ گیا اور مشرکین میں مل گیا۔ {فائدہ} اکابر
علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا کہ اجماع امت کا مخالف اور منکر جہنمی ہے
یعنی اجماع امت کو ماننا فرض ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہے مسلمانوں
کی جماعت پر جس نے جُدی راہ اختیار کی وہ دوزخ میں جا پڑا۔
|
==============================================
إختلاف كا حل :
حدیث
# 2
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ
الدِّمَشْقِيُّ ,
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ
بْنُ مُسْلِمٍ ,
حَدَّثَنَا مُعَانُ
بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ , حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى , قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ,
يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ
: "
إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ , فَإِذَا
رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًافَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ".
[سنن ابن ماجه (سنة الوفاة:275) : کتاب الفتن، باب السواد الاعظم ... رقم الحديث: 3948(3950)]
[سنن ابن ماجه (سنة الوفاة:275) : کتاب الفتن، باب السواد الاعظم ... رقم الحديث: 3948(3950)]
حضرت انس بن مالکؓ سے بھی مروی ہے
کہ رسول اللهؐ نے فرمایا "میری امت کسی
گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی، بس جب تم (لوگوں میں)
اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کو لازم پکڑلو
(یعنی اس کی اتباع کرو)".
الصفحة أو الرقم: 1/113 | خلاصة حكم المحدث : غريب
|
نوٹ
: اس حدیث میں یہ جملہ "جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سوادِ
اعظم (سب سے عظیم جماعت) کو لازم پکڑلو" حضرت انسؓ کی اس حدیث کے
علاوہ (پہلی بیان کردہ) حدیث ابن عمرؓ میں اس طرح ہے کہ "تو اتباع (پیروی)
کرو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ
علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں
(داخل کرنے کو)".
شواهد:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنِالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ ، قَالَ : وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
[جامع الترمذي » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ ... رقم الحديث: 2619(2676)]
شواهد:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنِالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ ، قَالَ : وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
[جامع الترمذي » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ ... رقم الحديث: 2619(2676)]
حضرت عرباض بن ساریہ
(رضی الله عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز
ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ
فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے
کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔
تو آپ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی
کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر ہو پس
جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب
وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے
راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے
محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت
ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
تنبيه
: یہاں پر اختلاف سے مراد خیر القرون (بہترین زمانوں)
کے اصحابِؓ رسولؐ سے دین کی فقہ [سوره التوبہ : ١٢٢] جمع کرکے ظاہر
کرنے والے ائمہ اربعہؒ (چار فقہ کے اماموں : امام ابوحنیفہؒ، امام
مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل) کے فقہی اختلاف نہیں،
کیونکہ وہ قرآن و سنّت کے دلائل ہی پر مبنی مختلف احادیث کے سبب یا
مختلف تفسیری و تشریحی، معانی و مطالب کے سبب یا جدید مسائل میں قرآن و
سنّت میں حکم غیر واضح ہونے کے سبب بطور اجتہادی (علمی) راۓ سے ظاہر کردہ مسائل میں
ہر ایک کی اپنی اپنی خداداد دینی سمجھ (فقہ) کے مطابق کسی ایک
بات کو راجح و مرجوح یا افضل و مفضول قرار دیے گئے فروعی
اختلاف ہیں، وہ تو اتباع کے لائق صحابہ کرام [سورہ التوبہ:١٠٠] میں بھی تھے، جن
جیسا ایمان لانے کو الله حکم دے [سورہ البقرہ:١٣+١٣٧]، ایسے
لوگوں کے اختلاف کو جو گمراہانہ کہے وہ دراصل الله
عزوجل کے علم پر اعتراض کرتا اور اس کے حکم کو رد کرنے کی
گمراہی میں مبتلا ہے. مزید اس کی تفصیلات جاننے کیلئے دیکھئے:
لیکن
خیر القرون (بہترین زمانوں) کے بعد جن جماعتوں کا دین
میں اختلاف، صحابہؓ و ائمہ اربعہؒ کی فقہی تشریحات اور
ان کے اختلافات کے سوا نفس پرستی میں غالب نام نہاد مسلمانوں کا اختلاف اب تک
کہ جمہور علماء کے خلاف چند نام نہاد اسکالرس / ڈاکٹرس / علماء کی اپنی
نئی تشریح ہو تو وہ مردود ہے.
سابقین
اولین کے فضائل:
وَالسّٰبِقونَ
الأَوَّلونَ مِنَ المُهٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا
عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّٰتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا
ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ
{9:100}
|
اور جو
لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو انکے پیرو ہوئے
نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی
ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے انکے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کےنہریں
رہا کریں انہی میں ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی [۱۱۲]
|
And
the Muhajirs and Ansar, the leaders and the first ones and those who followed
them in well-doing, --well-pleased is Allah with them, and well pleased are
they with Him, and He hath gotten ready for them Gardens where under the
rivers flow, as abiders therein forever. That is the achievement supreme.
|
"اعراب مومنین" کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و
اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے۔ یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا
شرف حاصل کیا اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی غرض جن لوگوں نے قبول حق
اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لئے پھر جو لوگ نیکوکاری اور حسن
نیت سے ان پیش روان اسلام کی پیروی کرتے رہے ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی
اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسےانہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے
ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں اسی
طرح خدا نے ان کو اپنی رضاء و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام
سے سرفراز فرمایا۔ (تنبیہ) مفسرین سلف کے اقوال { اَلسَّابِقُوْنَ
الْاَوَّلُوْنَ } کے تعین میں مختلف ہیں بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار
مراد ہیں جو ہجرت سے پہلے مشرف با سلام ہوئے۔ بعض کے نزدیک وہ مراد ہیں جنہوں نے
دونوں قبلوں (کعبہ و بیت المقدس) کی طرف نماز پڑھی۔بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک
کے مسلمان "سابقین اولین" ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس
کا مصداق قرار دیتے ہیں اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین و انصار
اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے "سابقین
اولین" ہیں۔ ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں "سبقت" و
"اولیت" اضافی چیزیں ہیں۔ ایک ہی شخص یا جماعت کسی کے اعتبار سے سابق
اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے "فائدہ" میں
اشارہ کیا۔ جو شخص یا جماعت جس درجہ میں سابق و اول ہو گی اسی قدر رضائے الہٰی
اور حقیقی کامیابی سے حصہ پائے گی۔ کیونکہ سبقت و اولیت کی طرح رضاء و کامیابی
کے بھی مدارج بہت سے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
|
دینی سمجھ کا حصول بعض لوگوں پر فرض کیوں ہے:
وَما كانَ
المُؤمِنونَ لِيَنفِروا كافَّةً ۚ فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم
طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِوَلِيُنذِروا
قَومَهُم إِذا
رَجَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَرونَ {9:122}
|
اور ایسے
تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ
تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جب کہ لوٹ کر آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں [۱۴۳]
|
And
it is not for the believers to march forth all together. So why should not a
band from each party of them march forth so that they may gain understanding
in religion and that when they come back unto them, haply they might warn
their people when they come back unto them, haply they may beware!
|
گذشتہ
رکوعات میں "جہاد" میں نکلنے کی فضیلت اور نہ نکلنے پر ملامت تھی۔
ممکن تھا کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمیشہ ہر جہاد میں تمام مسلمانوں پر نکلنا فرض
عین ہے اس آیت میں فرما دیا کہ نہ ہمیشہ یہ ضروری ہے ، نہ مصلحت ہے کہ سب مسلمان
ایک دم جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں مناسب یہ ہے کہ ہر قبیلہ اور قوم میں سے ایک
جماعت نکلے ، باقی لوگ دوسری ضروریات میں مشغول ہوں۔اب اگر نبی کریم ﷺ بنفس نفیس جہاد کے لئے تشریف لے جارہے ہوں تو ہر قوم
میں سے جو جماعت آپ کے ہمراہ نکلے گی وہ حضور ﷺ کی صحبت میں رہ کر اور سینکڑوں حوادث و واقعات میں سے
گذر کر دین اور احکام دینیہ کی سمجھ حاصل کرے گی اور واپس آ کر اپنی باقی ماندہ
قوم کو مزید علم و تجربہ کی بناء پر بھلے برے سے آگاہ کرے گی اور فرض کیجئے اگر
حضور ﷺ خود مدینہ میں رونق افروز رہے تو باقی ماندہ لوگ
جو جہاد میں نہیں گئے حضور ﷺ کی خدمت سے مستفید ہو کر
دین کی باتیں سیکھیں گے۔ اور مجاہدین کی غیبت میں جو وحی و معرفت کی باتیں سنیں
گے ان سے واپسی کے بعد مجاہدین کو خبردار کریں گے۔ آیت کےالفاظ میں عربی ترکیب
کے اعتبار سے دونوں احتمال ہیں۔ کما "فی روح المعانی" وغیرہ۔ حضرت شاہ
صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ہر قوم میں سے چاہئے بعضے لوگ پیغمبر کی صحبت میں رہیں
تا علم دین سیکھیں اور پچھلوں کو سکھائیں۔ اب پیغمبر ﷺ اس دنیا میں موجود نہیں لیکن علم دین اور علماء
موجود ہیں۔ طلب علم فرض کفایہ ہے اور جہاد بھی فرض کفایہ ہے۔ البتہ اگر کسی وقت
امام کی طرف سے نفیر عام ہو جائے تو "فرض عین" ہو جاتا ہے۔ تبوک میں
یہ ہی صورت تھی اس لئے پیچھے رہنے والوں سے بازپرس ہوئی۔ واللہ اعلم۔ ابو حیان
کے نزدیک یہ آیت جہاد کے لئے نہیں، طلب علم کے بارہ میں ہے۔ جہاد اور طلب علم کی
آیات میں مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں خروج فی سبیل اللہ ہے اور دونوں کی غرض
احیاء و اعلائے دین ہے۔ ایک میں تلوار سے دوسرے میں زبان وغیرہ سے۔
|
کیوںکہ نظامِ عالم میں
جس کام کی جو اہمیت وفضیلت ہے اسے اتنا ہی وقت وتوجہ درکار ہے، اس لیے ہر کام میں
سب کو مہارت پانے کا حکم نہ دینا رحمت کا اظہار ہے۔ اور فقیہ(عالم)کے خبردار کرنے
کا مقصد اس کی (دینی)خبر کی پیروی کرانا ہے جس میں پیروکار کیلئے نفس پرستی کا شائبہ
نہیں رہتا۔
===========================================
حدیث # 3
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّشِيطِيُّ ، ثنا سَلْمُ بْنُ زُرَيْرٍ ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً تَزِيدُ عَلَيْهَا أُمَّتِي فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " .
[المعجم الكبير، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ، رقم الحديث: 7975(8054)]
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّشِيطِيُّ ، ثنا سَلْمُ بْنُ زُرَيْرٍ ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً تَزِيدُ عَلَيْهَا أُمَّتِي فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " .
[المعجم الكبير، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ، رقم الحديث: 7975(8054)]
یھاں مسلم امت
محمدیہ میں ہونے والے فرقوں میں مسلمانوں کا وہ فرقہ مراد ہوگا جو الله
کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ (ساتھیوں) کے طریقہ پر ہوگا، چناچہ
چار صحابہ کرام (١) حضرت ابو درداءؓ (٢) حضرت انسؓ (٣) حضرت
واثلہ بن اسقعؓ اور (٤) حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ انہوں
نے رسول اللهؐ سے دریافت فرمایا :
" ذَرُوا الْمِرَاءَ ، فَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقُوا عَلَى
إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ،
وَالنَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهُمْ
عَلَى الضَّلالَةِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، وَمَنِ السَّوَادُ الأَعْظَمُ ؟ قَالَ :
" مَنْ كَانَ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ ،
وَأَصْحَابِي مَنْ لَمْ يُمَارِ فِي دِينِ اللَّهِ ، وَمَنْ لَمْ
يُكَفِّرْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ بِذَنْبٍ غُفِرَ لَهُ " .
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ...رقم الحديث: 7551 وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ...رقم الحديث: 7551 وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
بیشک بنی اسرائیل اکہتر
(٧١) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ گئے سب گمراہی
پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے، پوچھا
گیا: اے الله کے رسولؐ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : "وہ
لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں".
الصفحة أو الرقم: 6/236 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
[مجمع الزوائد : کتاب
العلم ، باب ما جاء في المرء، 704 (1/156)
مجمع الزوائد : كتاب الفتن ، باب افتراق الأمم ، 12096+12099(7/258)]
تخريج
الحديث
|
اس
کا یہ مضمون کہ "وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے
طریقہ پر ہوں" دوسری قوی (مضبوط) اور صحیح سند کی حدیث سے بطورِ
شواہد ثابت ہے، لہذا اس صحیح وثابت شدہ نبویؐ مضمون و تفسیر کو
بقیہ ائمہ وعلماء کی تشریحات بالراۓ سے
اولیت و افضلیت میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے۔
اور اس اصول کو اپنایا جاۓ تو
بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں اور بہت سے فرقے مٹ جائیں، لیکن عوام تو
عوام یہاں تو خواص نے بھی اس اصول کو نظر انداز کردیا اور اپنا یا اپنے فرقہ کا
تراشیدہ اصول کو رہنما بنایا، جس سے مسائل سلجھنے کی بجاۓ
الجھ گئے اور فساد و بگاڑ کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا.
========================================
حدیث # 4
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : أَتَيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، قَالَ لِي : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ ، قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ ، قَالَ : قُلْتُ : الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ ، أَمْ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ؟ قَالَ : بَل الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ يَدِي ، فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً ، ثُمَّ قَالَ : وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ ، وَإِلَّا فَدَعْهُ ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رقم الحديث: 18981(18922)]
سعید بن جمہان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو" ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور نا انصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان ! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے توبہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
حدیث # 4
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : أَتَيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، قَالَ لِي : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ ، قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ ، قَالَ : قُلْتُ : الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ ، أَمْ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ؟ قَالَ : بَل الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ يَدِي ، فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً ، ثُمَّ قَالَ : وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ ، وَإِلَّا فَدَعْهُ ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رقم الحديث: 18981(18922)]
سعید بن جمہان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو" ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور نا انصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان ! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے توبہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
الصفحة
أو الرقم: 1/427 | خلاصة
حكم المحدث : حسن
الصفحة
أو الرقم: 542 | خلاصة
حكم المحدث : حسن
الصفحة
أو الرقم: 2/1098 | خلاصة
حكم المحدث : غريب
الصفحة
أو الرقم: 5/233 (6/235) | خلاصة
حكم المحدث : رجاله ثقات
لہٰذا، اختلافی مسائل میں سوادِ اعظم (یعنی سب سے بڑی جماعت یعنی جمہور علماء) کی پیروی کرنے کو لازم بنایا جائے۔
------------------------------------------------------
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ائمہ
اربعہؒ (چار فقہ کے اماموں : امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ
اور امام احمدؒ بن حنبل) کی اتباع کو سوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے: "ولما
اندرست المذاهب الحقة إلاهذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج
عنها خروجا عن السواد الأعظم"(عقدالجید:۳۸)
ترجمہ:
جب صرف چار مذاہب (مسالک) کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب مٹ گئے تو ان مذاہب
اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم
سے نکل جانا ہے۔
علامہ ابن ہمامؒ : "انعقد
الاجماع علی عدم العمل بالمذاهب"۔(عقد الجید:۳۸)
حافظ الحدیث علامہ ابن حجرؒ نے لکھا ہے: "امافی
زماننا فقال ائمتنا لایجوز تقلید غیرالائمة الاربع الشافعی ومالک وابی حنیفۃ واحمد
بن حنبل"۔
ترجمہ:
رہی ہمارے زمانے کی بات تو ہمارے ائمہؒ حضرات نے فرمایا کہ ائمہ
اربعہؒ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے، (جو) امام
شافعیؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ (ہیں)۔
==========================================
حدثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ثنا ابْنُ الأَصْبَهَانِيِّ ، ثنا شَرِيكٌ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ يَسِيرَ بْنِ عَمْرٍو ،
عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ أَبَا مَسْعُودٍ (عقبة بن عمرو بن
ثعلبة) لَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ فَتَبِعْتُهُ ،
فَقُلْتُ : أَنْشُدُكَ اللَّهَ مَا سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ ؟ فَقَالَ : "إِنَّا لا نَكْتُمُ شَيْئًا , عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ
وَالْجَمَاعَةِ ، وَإِيَّاكَ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّهَا هِيَ الضَّلالُ وَإِنَّ
اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيَجْمَعَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلالَةٍ".
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ عُقَيْلٌ، رقم الحديث: 14106]
ترجمہ : حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) رسول اللهؐ سے مروی ہیں : بیشک ہم نہیں چھپاتے کوئی شئ (اصول یا حکم) ، تو لازم پکڑ الله کی تقویٰ اور جماعت کو، اور فرقوں سے خبردار رہو، پس وہ گمراہی ہے اور بیشک الله عز وجل نہیں ہوگا جمع کرنے کو امت محمد صلی الله علیہ وسلم کو گمراہی پر.
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ عُقَيْلٌ، رقم الحديث: 14106]
ترجمہ : حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) رسول اللهؐ سے مروی ہیں : بیشک ہم نہیں چھپاتے کوئی شئ (اصول یا حکم) ، تو لازم پکڑ الله کی تقویٰ اور جماعت کو، اور فرقوں سے خبردار رہو، پس وہ گمراہی ہے اور بیشک الله عز وجل نہیں ہوگا جمع کرنے کو امت محمد صلی الله علیہ وسلم کو گمراہی پر.
تخريج الحديث
|